خبر لیجے دہن بگڑابدزبانیاں، زباں درازیاں۔۔۔۔


Super 8 Baccarat APP download link

جس زمانے میں پاکستان میں ایک ہی ٹی وی چینل یعنی پی ٹی وی ہوتا تھا، ہم اس پرایک پروگرام ’مائنڈ یور لینگویج‘ بہت شوق سے دیکھا کرتے تھے۔ اس وقت سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک روز ایسا بھی آئے گا کہ ٹی وی چینلز پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندے ایک دوسرے سے بحث کرتے ہوئے دشنام طرازی پر اتر آئیں گے۔ او?? کچھ تو خواتین کے لیے بھی شرم ناک زبان ??ستعمال کریں گے۔ او?? بات صرف ٹی وی چینلز تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پارلیمان او?? سیاسی جلسوں میں بھی غیرمہذب زبان ??ستعمال کی جائے گی۔

ابلاغ کی بنیاد زبان ہے، سیاست زبان ??ے متاثر ہوتی ہے۔ سیاسی لسانیات ایک پرفارمنس ہے۔ آپ کیسے تقریر کرتے ہیں، عوام کے دلوں میں اپنی پارٹی کی جگہ بنانے کے لیے آپ کیسا منشور لکھتے ہیں۔ یہ آپ کے الفاظ ہی ہیں جو عوام کو آپ کے قریب لاتے ہیں۔ زبان کا ریاست کی تشکیل، اس کے طرزحکم رانی میں ایک کردار ہوتا ہے۔

اس لیے زبان کے استعمال کے بارے میں محتاط رہنا ضروری ہے۔ زبان مختلف طرح سے سیاست پر اثرانداز ہوتی ہے۔ جارج او??ویل نے 1946میں، سیاست او?? انگریزی زبان، کے عنوان ??ے ایک مضمون لکھا تھا، جس میں انہوں نے اس دور میں لکھی جانے والی بری او?? غلط انگریزی پر تنقید کی تھی او?? سیاسی کٹرپن او?? تقلیدپسندی کا زبان کی بے قدری سے تعلق جوڑا تھا۔

سیاسیات او??انگریزی زبان کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ کیسے عوام پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کے لیے لسانی تیکنیکوں کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک اہم بات ہے کیوںکہ ا س سے بہت سے تاریخی واقعات کی وضاحت ہوتی ہے مثال کے طور پر ہٹلر کی تقریریں جن کی وجہ سے دنیا کو دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یوں ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ سیاسی بیانیے کو کیوں او?? کیسے استعمال کیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زبان او?? طاقت میں کیا رشتہ ہے۔ زبان کو آئیڈیاز کے ابلاغ کے لیے او?? لوگوں پر اپنا اختیار جمانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مضمون میں ہم سیاست دانوں کے گندی زبان کے استعمال او?? گالم گلوچ پر بات کریں گے۔

 یہ سمجھنا غلط ہے کہ مغلظ زبان ??شدد کا سبب بنتی ہے۔ مغلظ زبان ??و خود ہی تشدد ہے۔ کسی کو گالیاں دے کر یا توہین آمیز الفاظ استعمال کرکے آپ اس پر زبانی او?? ذہنی تشدد ہی تو کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ پاکستان کے سیاست دانوں میں غلیظ زبان ??ستعمال کرنے کا رحجان ??ڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ہماری رائے میںسیاسی ماحول کو آلود ہ کرنے کا چلن ایوب ??ان کے زمانے سے شروع ہوا۔

مارشل لا لگاتے ہی انہوں نے سارے سیاست دانوں پر پابندی لگا دی تھی او?? جب 1965 کے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح حزب اختلاف کی مشترکہ امیدوار کے طور پر کھڑی ہوئیں تو نہ صرف انہیں ہرانے کے لیے سرکاری مشینری استعمال کی گئی بلکہ ان کے خلاف انتہائی توہین آمیز زبان ??ھی استعمال کی گئی۔ انہیں غدار تک کہا گیا مگر رسول بخش رئیس کے بقول سیاست میں گالم گلوچ یا ناشائستہ زبان ??ستعمال کرنے کا آغاز ستر کے عشرے کے او??ئل میںذولفقار علی بھٹو نے ایوب ??ان کے خلاف ایک مقبول عوامی تحریک کی قیادت کرتے ہوئے کیا۔ اپنی تقریروں کے دوران وہ عوامی مجمعوں میں مخالف سیاست دانوں کے خلاف توہین آمیز باتیں کرتے تھے، ان کا مضحکہ اڑاتے تھے او?? انہیں برے برے القابات سے نوازتے تھے۔

ہمارے مذہب اسلام کے مطابق مسلمان وہ ہے جس کی زبان او?? ہاتھوں سے دوسرے مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچے۔ سیاست دانوں کو سمجھنا چاہیے کہ ان کی ناشائستہ گفتگو سے عوام میں ان کے امیج پربہت برا اثر پڑتا ہے۔ اس سے سرکاری ادارے او?? حکومتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔

22 جون 2024 کو پاکستان ??حریک انصاف او?? سنی اتحاد کونسل کے رکن قومی اسمبلی ثنا اللّہ مستی خیل کی رکنیت معطل کی گئی کیوںکہ انہوں نے اپنی بجٹ تقریر کے دوران ??واجہ آصف کو گالی دے دی تھی، جس پر ان کی پارٹی کے لوگ ہنسنے لگے او?? ڈیسک بجائے، جب کہ سرکاری بنچوں کی جانب سے احتجاج ہوا او?? انہیں معطل کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جب کہ 2016 میں خواجہ آصف نے اسمبلی میں پی ٹی آئی کی شیریں مزاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نازیبا الفاظ کہے تھے، ایک او?? رکن نے آواز لگائی تھی، آنٹی! چپ کر جاؤ۔ اسپیکر نے خواجہ آصف کے ریمارکس کارروائی سے حذف کرا دیے تھے۔ جب شیریں مزاری نے احتجاج کیا تو خواجہ آصف نے کہا، یہ لوگ جو چاہے کرلیں، میں معافی نہیں مانگوں گا۔ اگلے سال انہوں نے فردوس عاشق اعوان کے خلاف اسی طرح کی زبان ??ستعمال کی۔

عمران ??ان کے مشیر شہباز گل بھی مغلظ زبان ??ستعمال کرتے تھے۔ مارچ 2022 میں کامران ??اہد کے شو میں انہوں نے رمیش کمار کے خلاف بارہا نازیبا الفاظ استعمال کیے، جس پر پروگرام میں موجود خواتین نے شدید احتجاج کیا۔ بعد میں شہبازگل نے رمیش کمار کے گھر جا کر ان ??ے معافی مانگ لی تھی۔

اکتوبر 2022 میں سینیٹ کے اجلاس میں ہمارے سیاست دانوں نے ایک دوسرے کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ جولائی 2023 میں خواجہ آصف نے ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نازیبا زبان ??ستعمال کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اخلاق باختہ عورتوں کو پارسائی پر لیکچر نہیں دینا چاہیے۔

انہوں نے ایوان میں موجود پی ٹی آئی کی خواتین کو عمران ??ان کی باقیات، کوڑا کرکٹ او?? کھنڈرات قرار دیا۔ خواتین کے احتجاج کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ماحولیات او?? کلائمٹ چینج کی اس وقت کی وفاقی وزیرشیری رحمٰن بھی وہاں موجود تھیں، اگلے دن انہوں نے ’ٹویٹ‘ کیا کہ وہ اس وقت اپنے کولیگ سے کلائمٹ چینج کے ایکشن پلان کے بارے میں بات کر رہی تھیں، اس لیے وہ خواجہ آصف کی بات نہیں سن پائیں، انہوں نے اس پر معذرت کی۔

پاکستان کے سنیئر سیاست داں شیخ رشید اکثر مواقع پر نا زیبا الفاظ استعمال کرتے رہے ہیں۔ جب انہوں نے بلاول بھٹو کے بارے میں توہین آمیز زبان ??ستعمال کی تو پاکستان پیپلزپارٹی نے ان پر مقدمہ دائر کردیا تھا۔

اس کے بعد جب وہ لندن گئے تو پیپلزپارٹی کے دو نوجوان کارکنوں نے ان پر انڈے پھینک کر مارے۔ فروری 2023 میں جب اسلام آباد پولیس انہیں گرفتار کرنے پہنچی تھی تو انہوں نے پولیس کو بھی گالیاں دیں۔ اپریل 2017 میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس وقت کے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی تقریر کے دوران ??سپیکر ایاز صادق نے خواتین ارکان ??سمبلی سے کہا کہ وہ یا تو خاموش ہوجائیں یا باہر جا کے باتیں کریں۔ خورشیدشاہ نے کہا کہ عورتوں کو باتیں کرنے سے مت روکیں، اگر یہ مسلسل باتیں نہیں کریں گی تو بیمار پڑجائیں گی۔ اس پر نفیسہ شاہ نے کھڑے ہو کر احتجاج کیاکہ مرد بھی تو باتیں کر رہے ہیں، صرف عورتوں کو کیوں منع کیا جارہا ہے۔ اس پر اسپیکر نے کہا کہ وہ انہیں چیلینج نہیں کر سکتیں۔ اسی طرح ایک او?? سیشن میں مسلم لیگ (ن) کے جاویدلطیف نے مراد سعید کی بہنوں کے بارے میں نازیبا باتیں کیں، جن پر معاشرے میں ہر کسی نے احتجاج کیا۔

سنیئر صحافی نصرت جاوید کے بقول انہوں نے سب سے پہلے ساتھی خاتون سیاست دانوں کے بارے میں جس مرد سیاست داں کو نا زیبا باتیں کرتے ہوئے سنا، وہ شیخ رشید تھے۔

ایک مرتبہ بے نظیر بھٹو ہرے رنگ کی قمیص او?? سفیدشلوار پہن کر ایوان میں آئیں تو شیخ رشید نے غلط جملے ادا کیے، بے نظیر کو یہ بات پسند نہیں آئی او?? ایوان میںاچھا خاصا ہنگامہ برپا ہو گیا۔ شیخ رشید نے ایک مرتبہ او?? بے نظیر کے حلیے کو اس وقت نشانہ بنایا، جب وہ پیلے رنگ کا سوٹ پہن کر آئیں، اس وقت شیخ رشید تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تھے، جب وہ باہر جانے لگیں، تو انہوں نے بے نظیر کے لیے وہ القاب استعمال کیے، جسے ہمارے ہاں بہت ہی توہین آمیز سمجھا جاتا ہے۔ اسی شام کو بے نظیر کی گورنر پنجاب سے میٹنگ تھی۔ شنید ہے کہ جب وہ وہاں پہنچیں تو ان کی آنکھیں رونے کے باعث سرخ ہو رہی تھیں۔ اسی رات کو شیخ رشید پر غیر قانونی ہتھیار رکھنے پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا۔

2018میں جب شیخ رشید نے انٹر ٹینمنٹ انڈسٹری کے افراد کے خلاف ایک ٹی وی پروگرام میں توہین آمیز الفاظ ادا کیے تو اداکارہ آرمینا خان نے لکھا: کون ہے یہ شخص، یہ فلم انڈسٹری کے بارے میں اتنی غلیظ زبان کیوں استعمال کر رہا ہے۔مین اسٹریم ٹی وی پر فحش زبان ??ستعمال کرنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ انہوں نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ ایسے لوگ لیڈر بنے ہوئے ہیں۔

غیر پارلیمانی زبان کا استعمال دنیا بھر کا مسئلہ ہے۔ نیوزی لینڈ میں تو 1930ء کے عشرے میں غیر پارلیمانی الفاظ کی باقاعدہ ایک فہرست مرتب کی گئی۔ آسٹریلیا کے سینیٹ میں 1997ء میں ’’جھوٹا‘‘ او?? ’’احمق‘‘ کو غیر پارلیمانی الفاظ قرار دیا گیا۔ ایسے الفاظ جن سے دین کی تحقیر کا پہلو نکلتا ہو، ہمیشہ سے غیرپارلیمانی رہے ہیں۔ جنسی عمل او?? اس حوالے سے عورتوں کے بارے میں توہین آمیز الفاظ سے ہمیشہ گریز کیا جاتا ہے۔ ’’شٹ‘‘ او?? ‘‘بل شٹ‘‘جیسے الفاظ کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے، لیکن انھیں غیر پارلیمانی سمجھا جاتا ہے۔

کوئنز لینڈ کی پارلیمان میںبھی کسی رکن کے بارے میں غیر اخلاقی او?? توہین آمیز الفاظ کو غیر پارلیمانی قرار دیا گیا ہے۔ بیلجیم میں غیر پارلیمانی الفاظ جیسی کوئی چیز نہیں ملتی۔ کوئی بھی رکن پارلیمان، جو دل چاہے بول سکتا ہے۔ ان کی رائے میں اگر بیلجیم ایک جمہوری ریاست ہے، تو کچھ بھی بولنا ارکان کا آئینی حق ہے۔

کینیڈا کے قانون ساز اداروں میں ایسے بہت سے الفاظ جن کا مقصد ایک دوسرے پر بھپتی کسنا یا ایک دوسرے کا مضحکہ اڑانا یا اس کی توہین کرنا ہو، غیر پارلیمانی قرار دیے جا چکے ہیں۔ فیجی کی پارلیمان میں 2021ء میں غیر پارلیمانی زبان کے بارے میں بحث ہو چکی ہے۔ ہانگ کانگ کی لیجسلیٹیو کونسل کے صدر 1996ء او?? 2009ء میں ’’جہنم میں جاؤ‘‘ او?? ’’جاؤ مرو‘‘ جیسے چند الفاظ غیر پارلیمانی قرار دیے جا چکے ہیں۔ ہندوستان کی پارلیمنٹ نے2012ء میں ایسے الفاظ او?? جملوں پر مشتمل کتاب شائع کی جو غیر پارلیمانی ہیں۔ ان میں ’’علی بابا چالیس چور‘‘، ’’بلیک میل‘‘، ’’انگوٹھا چھاپ‘‘ کسی خاتون رکن کو ’ڈارلنگ‘ کہنا جیسے الفاظ شامل ہیں۔ 2022ء میں لوک سبھا سیکریٹریٹ نے اس کتاب میں مزید الفاظ شامل کیے۔

آئر لینڈ میں بھی ایوان میں بد نظمی کے حوالے سے بہت سے الفاظ کو غیر پارلیمانی قرار دیا گیا ہے۔ چئیر پرسن کے توجہ دلانے پر ارکان ??پنے الفاظ واپس لے لیتے ہیں او?? ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ اٹلی کی تاریخ میں کسی رکن پارلیمان کی آزادی اظہار پر واحد پابندی غیر پارلیمانی الفاظ ہیں، بقول ایک رکن کے ’’مجھے دانش مندی یا غیر دانش مندی سے نہیں، بلکہ پارلیمانی طریقے سے بولنے کے لیے کہا جاتا ہے۔‘‘ نیوزی لینڈ میں بھی ایسے الفاظ او?? جملوں کی فہرست مرتب کی گئی ہے، جنھیںمختلف ادوار میں اسپیکر حضرات نے غیر پارلیمانی قرار دیا۔

ناروے میں 2009ء میں اسپیکر نے پروگریس پارٹی کے رکن کو ایک وزیر کو ’’ہائی وے ڈاکو‘‘ کہنے پر ٹوکا۔ سنگا پور میں سترہ اپریل 2023ء کو ہونے والے اسمبلی سیشن کی کلپ سوشل میڈیا پرآئی، جس میں غیر پارلیمانی زبان ??ستعمال کی گئی تھی۔ اس پر گیارہ جولائی 2023ء کو اس رکن کو عوام کے سامنے معافی مانگنا پڑی۔ برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں ’باسٹرڈ‘، ’شرابی‘، ’منافق‘ او?? ’احمق‘جیسے الفاظ غیر پارلیمانی قرار دیے جا چکے ہیں۔ 2019ء میں جب ایک لیڈر نے بورس جانسن کو ’نسل پرست‘ کہا، تو اسپیکر نے اسے اپنے الفاظ واپس لینے کو کہا، لیکن اس رکن نے بتایا کہ وہ پہلے ہی جانسن کو بتا چکا تھا کہ وہ یہ الفاظ استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اس پر اس کے بیان میں یہ الفاظ رہنے دیے گئے۔

’جیو‘معاصر ویب ڈیسک کی 2019ء کی ایک رپورٹ کے مطابق اب پاکستان میں بھی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ارکان ??یر پارلیمانی الفاظ کی فہرست مرتب کر رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کے 2007ء کے رولز کے مطابق اسپیکر کج بحثی او??حجت کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ او?? غیرپارلیمانی ، غیر متعلقہ، مضحکہ خیز الفاظ او?? جملوں کے استعمال کو ممنوع قرار دے سکتا ہے۔ 2019ء میں جب اس وقت کی نئی حکومت نے اقتدار سنبھالاتو پیپلزپارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو کے قومی اسمبلی میں اپنی تقریرمیں بارہا ’ سلیکٹڈ‘ کا لفظ استعمال کرنے پر وفاقی وزیر عمر ایوب ??ان نے اس لفظ کے استعمال کو ممنوع قرار دینے کا مطالبہ کیا۔

اسی طرح اپنی ایک تقریر میں پیپلز پارٹی کے چئیر پرسن نے اس وقت کے فنانس منسٹر اسد عمر کو ’’پڑھا لکھا جاہل‘‘ کہا، لیکن اسپیکر نے ایوان کی کارروائی سے یہ الفاظ حذف کروا دیے۔ اس وقت کے ایک وفاقی وزیر فواد چوہدری نے حزب اختلاف کے راہ نماؤں کو ’’چور او?? ڈاکو‘‘ کہا، تو ایوان میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ حزب اختلاف نے اس وقت تک سینیٹ او?? قومی اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کیے رکھا، جب تک فواد چوہدری نے معافی نہیں مانگی۔

مئی 2024ء میں موجودہ حکومت کے اتحادی رکن طارق بشیر چیمہ نے پی ٹی آئی کی زرتاج گل کے خلاف غلیظ زبان ??ستعمال کی او?? ان کے شور مچانے او?? حزب اختلاف کے مرد ارکان کے تیور دیکھ کر انھیں ایوان ??ے فرار ہونا پڑا او?? اسپیکر نے حزب اختلاف کو یقین دلایا کہ وہ چیمہ صاحب کو معافی مانگنے کے لیے کہیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے رانا ثنا اللہ بھی مخالفین کے خلاف مغلظ زبان ??ستعمال کرتے رہے ہیں۔

امریکا کے سابق صدر او?? موجودہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ بھی ناشائستہ زبان ??ستعمال کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ ان ??ے پہلے کسی امریکی صدر نے ایسی کھردری، ظالمانہ او?? خطرناک زبان ??ستعمال نہیں کی تھی۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسرے ممتا ز امریکی سیاست دانوں نے بھی اپنی گفتگو کے دوران ??یر مہذب الفاظ کا استعمال شرو ع کر دیا۔ دنیا بھر کی پارلیمان میں بات صرف شعلہ زبانی او?? گالم گلوچ تک محدود نہیں رہتی، بلکہ کبھی کبھی تو ارکان ??اہم دست و گریباں بھی ہو جاتے ہیں۔ عام طور پر ایوان کی کارروائی براہ راست ٹی وی پر نشر ہو رہی ہوتی ہے، اس لیے عوام ا لناس بھی یہ مناظر دیکھ لیتے ہیں۔

اس بارے میں باقاعدہ تحقیق بھی ہوئی ہے کہ کچھ ممالک کی اسمبلیوں میں بات ہاتھا پائی تک کیوں پہنچتی ہے۔ امریکا کی خانہ جنگی کے آغاز سے پانچ سال پہلے 1856ء میں غلامی کو جاری رکھنے کے حامی پریسٹن بروکس نے اپنی چھڑی سے غلامی کے خاتمے کی حمایت کرنے والے چارلس سمنرکو اتنا زد وکوب کیا کہ وہ مرتے مرتے بچے۔ 1920ء میں آئر لینڈ کی جنگ آزادی کے دوران ??ٓئر لینڈ میں برطانوی فوجیوں کے مظالم پر بحث کے دوران ’ہاؤس آف کامنز‘ کے آئرش ممبر جوزف ڈیولن پر کنزرویٹیو رکن جوہن مولسن نے حملہ کر دیا۔ حال ہی میں یو کرین کے حوالے سے بھی برطانیہ کے قانون ساز اداروں میں جھگڑے ہوئے۔ 2010 کے عشرے میں ترکی کی پارلیمان میں بارہا جھگڑے او?? مکے بازی ہوئی۔

ظاہر ہے عوامی نمائندوں کی جانب سے جسمانی طاقت کا استعمال جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔ حال ہی میں 17 اگست 2024ء میں ترکی کے پارلیمان میں اس وقت ارکان کے درمیان مکے بازی ہوئی، جب حزب اختلاف کے ایک رکن نے مطالبہ کیا کہ ان کے اسیر رکن اسمبلی کو اجلاس میں شرکت کے لیے لایا جائے۔ اس مطالبے پر بر سر اقتدار پارٹی کے ارکان ??ن کی طرف لپکے او?? ان پر مکے برسا دیے۔ کچھ لوگوں نے بیچ بچاؤ کی کوشش کی، مگر جب تک کچھ ارکان لہو لہان ہو چکے تھے۔

تنازعات کے حل کا جمہوری اصول پر امن مذاکرات ہیں۔ جمہوری ممالک کی پارلیمانوں میں اکثریت کے فیصلوں کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ پارلیمان میں ہاتھا پائی او?? گالم گلوچ کے نتیجے میں عوام سیاست دانوں سے مایوس او?? جمہوریت سے دل برداشتہ ہونے لگتے ہیں۔ اخبارات او?? چینلوں کو پارلیمان میں مار پیٹ او?? گالم گلوچ کی بدولت چٹ پٹی سرخیاں تو مل جاتی ہیں، لیکن ان واقعات کے اثرات دور رَس ہوتے ہیں۔ معاشرے میں تفریق بڑھتی ہے، جمہوری روایات پیچھے رہ جاتی ہیں او?? انتہا پسندی فروغ پاتی ہے، مگر اس کا ایک او?? پہلو بھی ہے۔

بعض دفعہ سیاست دانوں کے شور شرابے سے عوام میں ان کی مقبولیت بھی بڑھتی ہے، خاص طور پر اگر انتخابات نزدیک ہوں۔ تائیوان میں جہاں سب سے زیادہ پارلیمانی جھگڑے ہوتے ہیں، وہاں نظریاتی طور پر انتہا پسند سیاست دان ??پنے حامیوں کے ووٹوں کو یقینی بنانے کے لیے پارلیمان میں جھگڑے او?? شور شرابا کرتے ہیں۔ بعض دفعہ کسی حکمت عملی یا قانونی مقصد کے لئے بھی دانستہ جھگڑا کیا جاتا ہے۔

یورپی پارلیمنٹ میں عام طور پر بہت تہذیب سے بات ہوتی ہے، لیکن کبھی کبھار وہاں بھی ایک دوسرے کے لیے توہین آمیز کلمات ادا کیے جاتے ہیں۔ 2010ء میں برطانوی رکن یورو ڈپٹی نائجل نے پارلیمنٹ کے صدر ہرمن وان کے خلاف نازیبا کلمات ادا کیے تھے۔ جس کا ہر کسی نے نوٹس لیا، کیوں کہ وہاں عام طور پر اس طرح کا انداز گفتگو اختیار نہیں کیا جا تا، لیکن یورپی پارلیمان ??میت دنیا بھر کی پارلیمان میں کسی وقت بھی زبانی او?? جسمانی تشدد کا مظاہرہ ہو سکتا ہے۔

ماہرین کی ایک ٹیم نے 1990- 2018ء کے درمیان ??نیا کی مختلف پارلیمان میں ہونے والے جھگڑوں کے 375 واقعات کا جائزہ لیا تو انھیں پتا چلا کہ پارلیمانوں میں ان کے اندازے سے کہیں زیادہ تشدد ہوتا ہے۔ دنیا کے 78 ممالک میں اس طرح کے واقعات سامنے آئے، ان میں لاطینی امریکا او?? کریبین، یورپ، مشرق وسطیٰ، ذیلی صحارا افریقا ،شمالی افریقا او?? ایشیا کے مختلف ممالک شامل ہیں۔ زیادہ تر جھگڑے پالیسیوں کے حوالے سے ہوتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر جھگڑے اس وقت ہوتے ہیں، جب اداروں یا اختیارات کی تفویض میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے بعد ان مسائل پر جھگڑے ہوتے ہیں، جو بہت زیادہ علامتی اہمیت رکھتے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ عوام کے منتخب نمائندے پارلیمان میں پر امن طور پر قوانین بنانے کے لیے بحث و مباحثہ کریں، لیکن کبھی کبھی بات توتکار، گالم گلوچ او?? ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے او?? تہذیب و شائستگی کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے، جو ایک افسوس ناک بات ہے۔ میڈیا سنسنی خیز انداز میں ان ??ھگڑوں کی کوریج کرتا ہے، قارئین او?? ناظرین بھی لطف اندوز ہوتے ہیں او?? یہ بھول جاتے ہیں کہ ایسے جھگڑے ایک سنجیدہ سیاسی رحجان کی عکاسی کرتے ہیں۔

ان ??ھگڑوں سے پارلیمان کی کارروائی میں خلل پڑتا ہے ، اس لیے انھیں غیر متعلقہ قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پارلیمان میں ہونے والے جھگڑوں کا تعلق جمہوریت کے معیار سے ہے؟ لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے۔ اگر انتخابات منصفانہ او?? غیر جانب دارانہ طور پر منعقد کرائے جائیں، تو قانون ساز نمائندوں کو پارلیمان کی کارروائی جائز لگتی ہے او?? حزب اختلاف کو بھی امید رہتی ہے کہ اگلے انتخابات میں جیت کر آنے کے بعد وہ ان پالیسیوں کو تبدیل کر پائیں ??ے، جن سے وہ اتفاق نہیں کرتے۔ زیادہ تر جمہوری ممالک وہ ہیںم جہاں جمہوریت کی تاریخ بہت پرانی ہے او?? جمہوری روایات کی جڑیں گہری او?? مضبوط ہیں۔ تجربہ بتاتا ہے کہ جن پارلیمانوں میں بہت سی چھوٹی پارٹیوں کے نمائندے ہوتے ہیں، وہاں جھگڑے او?? تشدد زیادہ ہوتا ہے۔ اس طرح کے جھگڑوں او?? تشدد کا نشانہ اگر خواتین کو بنایا جائے، تو یہ جمہوریت کے لیے او?? بھی زیادہ نقصان ??ہ ہے۔ اس سے نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

بلکہ عورتوں کے قائدانہ کردار ادا کرنے کے امکانات بھی مسدود ہو جاتے ہیں۔ سیاست میں مساوی مقام کے حصول میں آج بھی عورتوں کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ پارلیمنٹ میں آنے کے بعد عورتوں کو کئی طرح کی ہراسمنٹ او?? تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میڈیا بھی پارلیمان میں عورتوں کے لیے مسائل پیدا کرنے میں آگے آگے رہتا ہے او?? انھیں یاد دلاتا رہتا ہے کہ انہیں کیسا لباس پہننا چاہیے او?? کیسے بات کرنی چاہیے۔

پارلیمنٹری ریپڈ رسپانس ٹیم کی بانی رکن جرمنی کی ڈاکٹر حنا نیومین کے مطابق کووڈ کی وبا کے دوران ??مہوری اداروں میں انسانی حقوق کی بہت زیادہ خلاف ورزیاں دیکھنے میں آئیں او?? عورتوں او?? کمزور طبقات کے خلاف تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اب دنیا بھر میں عورتوں کے خلاف ہونے والے سیاسی تشدد کا مقابلہ کرنے کے لئے ارکان پارلیمان ??کٹھے ہو رہے ہیں۔ صنفی عدم توازن او?? عدم مساوات او?? عورتوں پر حملوں کی وجہ سے ہم نہ توجمہوریت کو مضبوط بنا پاتے ہیں او?? نہ ہی معاشرے میں رواداری پیدا کر پاتے ہیں۔

دولت مشترکہ کی پارلیمنٹ نے اس حوالے سے ایک ’اینٹی ہراسمنٹ پالیسی‘ بھی بنائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ارکان کی حفاظت او?? دیکھ بھال کرنا پارلیمان کی ذمہ داری ہے۔ سیاست دانوں او?? ان کے عملے کو ہراساں کرنا ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس لیے اسے عالمی سیاق وسباق میں ہی دیکھنا ہو گا، مثال کے طور پر جمہوری بیک سلائیڈنگ، مطلق ا لعنانیت کا عروج او?? ایک بار پھر پدر سری اقدار کا زور پکڑنا۔ پھر سوشل میڈیا بہت کچھ دکھا رہا ہوتا ہے او?? آپ نظر آئے بغیر بہت کچھ کر رہے ہوتے ہیں۔

آخر میںہم یہی کہیں گے کہ سیاست دانوں خاص طور پر پارلیمنٹیرین کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ عوام کے لیے رول ماڈل ہیں او?? عوام چاہتے ہیں کہ وہ ان کے مسائل حل کریں او?? ان کے مصائب و تکالیف کو کم کریں۔ اگر وہ یہ سب کرنے کے بہ جائے پارلیمان میں بد زبانی، بد کلامی کا مظاہرہ ہی کرتے رہیںگے تو عوام ان ??ے مایوس ہو جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

سلاٹس پر مفت اسپن کو کیسے متحرک کریں۔_سلاٹ بونس گیمز_علامتیں_آٹو پلے سلاٹ گیمز_فون سلاٹ گیمز کے ذریعے ادائیگی کریں۔ سلاٹ گیمز کے ساتھ کیسینو_آن لائن کیسینو سلاٹ مشینیں۔_عملی پلے سلاٹس_آٹو پلے سلاٹ گیمز_اصلی پیسے کے لیے سلاٹس کھیلیں بہترین فطرت پر مبنی سلاٹس_سلاٹ مشین ایپس_Novomatic Slot Machines_افسانوی مخلوق سلاٹ مشینیں_سلاٹ مشین کے جائزے اور درجہ بندی پاکستان کے لیے ٹاپ اردو سلاٹ ایپس_آٹو پلے کی خصوصیات کے ساتھ بہترین سلاٹس_سب سے بڑے سلاٹ جیک پاٹس_مائیکرو گیمنگ سلاٹس_ویڈیو سلاٹس پر جیتنے کا طریقہ NetEnt Slot Games_iOS آلات پر سلاٹ گیمز کھیلیں_فوری جیت کے ساتھ سلاٹس_بونس راؤنڈ کے ساتھ سلاٹ مشین_سلاٹ گیمز اسلام آباد میں مقبول ہیں۔ نیٹلر سلاٹس_پاکستان میں موبائل کے لیے مفت سلاٹ گیمز_پاکستان کے لیے آن لائن سلاٹس_گولیاں کے لیے مفت سلاٹ گیمز_ٹاپ ریٹیڈ سلاٹ ایپس بڑے جیک پاٹس کے ساتھ سلاٹ مشینیں۔_فوری کھیلنے کے اختیارات کے ساتھ سلاٹ گیمز_اردو میں کیسینو سلاٹس_پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے آن لائن سلاٹ ٹورنامنٹ_ٹاپ سلاٹ گیم فورمز ڈیسک ٹاپ پر سلاٹ گیمز کھیلیں_پلےٹیک سلاٹس_سلاٹ مشین_سلاٹ مشین کی ادائیگیوں کو محفوظ بنائیں_آئی فون پر سلاٹ گیمز ہائی لمیٹ سلاٹ مشینیں۔_سمندری ڈاکو سلاٹ مشینیں۔_فوری جیت سلاٹ مشینیں_کیسینو سلاٹ گیمز فیڈ بیک_ایک سے زیادہ بونس راؤنڈ کے ساتھ سلاٹس ارتقاء گیمنگ سلاٹس_اصلی پیسے کے لیے سلاٹس کھیلیں_ڈیسک ٹاپ پر سلاٹ گیمز کھیلیں_پے پال کے ساتھ سلاٹ مشینیں۔_کریڈٹ کارڈ سلاٹس ارتقاء گیمنگ سلاٹس_اصلی پیسے کے لیے سلاٹس کھیلیں_ڈیسک ٹاپ پر سلاٹ گیمز کھیلیں_پے پال کے ساتھ سلاٹ مشینیں۔_کریڈٹ کارڈ سلاٹس ارتقاء گیمنگ سلاٹس_اصلی پیسے کے لیے سلاٹس کھیلیں_ڈیسک ٹاپ پر سلاٹ گیمز کھیلیں_پے پال کے ساتھ سلاٹ مشینیں۔_کریڈٹ کارڈ سلاٹس ارتقاء گیمنگ سلاٹس_اصلی پیسے کے لیے سلاٹس کھیلیں_ڈیسک ٹاپ پر سلاٹ گیمز کھیلیں_پے پال کے ساتھ سلاٹ مشینیں۔_کریڈٹ کارڈ سلاٹس ارتقاء گیمنگ سلاٹس_اصلی پیسے کے لیے سلاٹس کھیلیں_ڈیسک ٹاپ پر سلاٹ گیمز کھیلیں_پے پال کے ساتھ سلاٹ مشینیں۔_کریڈٹ کارڈ سلاٹس ارتقاء گیمنگ سلاٹس_اصلی پیسے کے لیے سلاٹس کھیلیں_ڈیسک ٹاپ پر سلاٹ گیمز کھیلیں_پے پال کے ساتھ سلاٹ مشینیں۔_کریڈٹ کارڈ سلاٹس